حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے ’’کاش !میں کسی ٹیلہ پر پڑی ہوئی راکھ ہوتا جسے ہوائیں اڑائے لئے پھرتیں۔‘‘ اللہ کے حضور حساب کتاب اور پھر جہنم کے عذاب کی وجہ سے یہ کیفیت صرف چند ایک کی نہیں بلکہ سبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معاملہ ایسا ہی تھا ،مزید واقعات کتاب ہذا کے باب ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جہنم‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ علم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف فرما سکتا ہے؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غصہ پر غالب ہے؟ سب کچھ معلوم تھا بلکہ ہم سے کہیں بہتر معلوم تھا لیکن اللہ کی عظمت کبریائی اور جلال کا خوف ہر وقت دل میں رہنا عین عبادت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ فَلاَ تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِیْنَ ،﴾(175:3) ’’لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ صرف مجھ ہی سے ڈرو اگر تم واقعی مومن ہو۔‘‘ (سورہ آل عمران،آیت نمبر 175) یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے بھی اس کے عذاب اور پکڑ سے ڈرتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے عذاب اور پکڑ سے ڈرتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ((وَ اللّٰہِ اِنِّیْ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ ))’’اللہ کی قسم !میں تم سب لوگوں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔‘‘ ( بخاری)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی دعاؤں میں اللہ کا ڈر خود طلب فرماتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک اہم ترین دعا یہ ہے((اَللّٰھُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا تَحُوْلُ بِہٖ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ مَعْصِیَتِک))’’اے اللہ! تو ہمیں اتنا ڈر عطا فرما جو ہمارے اور ہمارے گناہوں کے درمیان رکاوٹ بن جائے۔‘‘ (ترمذی)ایک دعا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے ڈر سے خالی رہنے والے دل سے پناہ مانگی ہے ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ قَلْبٍ لاَ یَخْشَعْ))’’ اے اللہ! میں ایسے دل سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو تجھ سے نہ ڈرے۔‘‘ تابعین اور تبع تابعین یعنی خیر القرون کے سبھی لوگ اللہ کے عذاب اور پکڑ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ اللہ کے عذاب اور پکڑ سے بے خوف ہوجانا تو بذات خود کبیرہ گناہ ہے جس کا نتیجہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے |