Maktaba Wahhabi

42 - 219
﴿اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْئَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ، وَ لَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَ لاَ الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ ھُمْ کُفَّارٌاُ ولٰٓئِکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا،﴾ (18۔17:4) ’’ہاں یہ جان لوکہ اللہ تعالیٰ پر توبہ کی قبولیت کا حق انہی لوگوں کے لئے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی برا فعل کرتے ہیں اور اس کے بعد جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظر عنایت سے پھر متوجہ ہوجاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا حکیم اور دانا ہے (اور یہ بھی جان لو کہ)توبہ ان لوگوں کے لئے نہیں جو برے کام کئے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتاہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی اور اسی طرح توبہ ان لوگوں کے لئے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں ایسے لوگوں کے لئے تو ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘( سورہ نساء ،آیت نمبر 18۔17) اس آیت نمبر میں تین باتیں بڑی واضح ہیں: اولًا:گناہوں سے معافی صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو لاعلمی یا بھول چوک سے گناہ کرتے ہیں۔ ثانیاً:زندگی بھر عمداً گناہ کرنے والوں کے لئے عذاب الیم ہے۔ ثالثاً :حالت کفر میں مرنے والوں کے لئے عذاب الیم ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جنگ تبوک کے موقع پر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ،حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور حضرت مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ سے سہواً کوتاہی ہوئی ،تینوں حضرات نے توبہ استغفار کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی جبکہ اسی جنگ کے موقع پر منافقین نے عمداً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی،انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا:﴿اِنَّھُمْ رِجْسٌ وَّمَأْوٰھُمْ جَھَنَّمُ جَزَائً بِّمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ،﴾(95:9)’’یہ لوگ سراسر گندگی ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ان اعمال کے بدلے میں جو انہوں نے کمائے۔‘‘( سورہ توبہ، آیت نمبر 95) حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بیشتر ایسے تھے جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے واضح الفاظ میں جنت کی بشارت دنیا میں ہی دے دی تھی۔ مثلاً عشرہ مبشرہ ،اصحاب ِبدر اور اصحاب ِشجر،لیکن اس کے
Flag Counter