سے بچانے کا پابند ہے یہ اپنے اہل و عیال سے سچی خیر خواہی کا تقاضا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری بھی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ حکم دیا﴿ وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ،﴾ ’’اپنے قریبی اعزہ کو جہنم کی آگ سے ڈراؤ۔‘‘تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کنبے اور قبیلے والوں کو بلایا انہیں جہنم کی آگ سے ڈرایا اور آخر میں اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نام لے کر فرمایے(( یَا فَاطِمَۃُ اِنْقِذِیْ نَفْسِکِ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لاَ اَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئً صلی اللّٰہ علیہ وسلم ))’’اے فاطمہ ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ،اللہ کے مقابلے میں (قیامت کے روز(میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔‘‘( مسلم)اپنے عزیز و اقارب اور کنبے قبیلے والوں کو جہنم کی آگ سے ڈرانے کے بعد اپنی بیٹی کو جہنم کی آگ سے ڈرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو خبردار فرما دیا کہ اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچانا بھی والدین کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔ ایک حدیث شریف میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ’’ہر بچہ فطرت(اسلام)پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی،عیسائی یا آتش پرست بنادیتے ہیں۔‘‘( بخاری)گویا عام اصول یہی ہے کہ والدین ہی اولاد کو یا تو جنت کی راہ پر ڈالتے ہیں یا جہنم کی راہ پر۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی بہت سی کمزوریوں کا ذکر فرمایا ہے۔ مثلًا’’انسان بڑا ظالم اور ناشکراہے ۔‘‘(سورہ ابراہیم ،آیت نمبر 34)’’انسان بڑا جلد باز ہے۔‘‘(سورہ بنی اسرائیل،آیت نمبر11) وغیرہ دیگر کمزوریوں کی طرح ایک کمزوری یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ انسان جلد حاصل ہونے والے فوائد کو زیادہ اہمیت دیتا ہے خواہ وہ عارضی اور قلیل ہی کیوں نہ ہوں جبکہ دیر سے حاصل ہونے والے فوائد کو نظر انداز کردیتا ہے خواہ وہ ابدی اور کثیر ہی کیوں نہ ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ ھٰؤُلاَئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَ یَذَرُوْنَ وَ رٰئَ ھُمْ یَوْمًا ثَقِیْلاً ﴾ ’’بیشک یہ لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا)سے محبت کرتے ہیں اور آگے آنے والا بھاری دن نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘ (سورہ دہر،آیت نمبر27) یہ انسان کی اسی فطری کمزوری کا نتیجہ ہے کہ بیشتر والدین اپنی اولاد کو دنیا کی عارضی زندگی میں اعلیٰ مناصب،باعزت اور باوقار مقام دلوانے کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلوانے کا اہتمام کرتے ہیں خواہ اس کے لئے انہیں کتنا عرصہ لگے کتنی دولت خرچ کرنی پڑے اور کتنی تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کرنی پڑیں جبکہ |