Maktaba Wahhabi

34 - 219
خبردار کردے ،اپنے اعزہ و اقارب کو جہنم کی آگ سے ڈرا دے،اپنے دوست احباب اور یمین و یسار ہمسایوں کو جہنم کی آگ سے خبردار کردے کہ لوگو!آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے کر اور جس کے پاس یہ بھی نہ ہو وہ اچھی بات ہی کہہ کر بچے۔( مسلم) حد چاہئے سزا میں …! جہنم کی آگ اور اس میں مختلف قسم کے عذابوں کا مطالعہ کرتے وقت آدمی کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں بے اختیار آدمی جہنم سے پناہ مانگنے لگتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی آتا ہے کہ زندگی بھر کے گناہ،خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں بہرحال ان گناہوں کی سزا کے لئے ایک حد ہونی چاہئے اور پھر وہ ذات جو اپنے بندوں پر بڑی ہی رحیم اور مہربان ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انسانوں کو کیسے اور کیوں کر آگ میں ڈال دے گی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے قوانین جزا و سزا میں سے ایک اہم قانون ذہن نشین کر لینا چاہئے،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’جس شخص نے لوگوں کو ہدایت کی دعوت دی اسے ان تمام لوگوں کے برابر ثواب ملے گا ،جنہوں نے اس کی دعوت پر عمل کیا اور ان لوگوں کے اپنے ثواب میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی اسی طرح جس نے لوگوں کو گمراہی کی طرف بلایا اسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر گناہ کیا جبکہ گناہ کرنے والوں کے اپنے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘( مسلم)اس قانون کی مزید وضاحت ہابیل اور قابیل کے واقعہ سے بھی ہو جاتی ہے جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے’’دنیا میں کوئی شخص ظلم سے قتل نہیں کیا جاتا مگر آدم کا پہلا بیٹا یعنی قابیل (قاتل)بھی اس کے گناہ میں شریک ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا تھا۔ ( بخاری ومسلم)اس قانون کے تحت ایک کافر کو صرف اس کے اپنے کفر کی سزا ہی نہیں ملے گی بلکہ اس کی اولاد اور پھر اولاد کی اولاد…حتی کہ قیامت تک اس کی نسل سے جتنے بھی کافر پیدا ہوں گے،ان تمام کافروں کے کفر کی سزا اس پہلے کافر کو ملے گی جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کردیا تھا جبکہ ان تمام کافروں کو اپنے اپنے کفر کی سزا بھی ملے گی اور یہی معاملہ ہر اس کافر کے
Flag Counter