بھی غیر متناسب ہوتا تو انسان کی شکل بڑی بھدی اور مضحکہ خیز بن جاتی۔ تصور کیجئے کہ 5یا 6فٹ جسم کے ساتھ اگر دس فٹ لمبے بازو لگادیئے جاتے یا پیشانی پر ایک فٹ لمبی ناک لگا دی جاتی تو انسان کی شکل کس قدر بدصورت بلکہ ڈراؤنی ہوتی؟ ممکن ہے جہنم میں کافر کی جسامت کو اسی بے ڈھبے طریقے سے بڑھا کر انتہائی مکروہ خوفناک اور ڈراؤنی صورت دے دی جائے۔واللہ اعلم بالصواب! انسانی جسم میں تکلیف کے اعتبار سے جلد (یا کھال)کا حصہ سب سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کافروں کو جہنم میں زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانے کے لئے جلی ہوئی کھال (یا جلد)کو بار بار بدلنے کا ذکر قرآن مجید میں خاص طور پرآیا ہے۔ ( ملاحظہ ہو سورہ نساء،آیت نمبر4)کھال کو جب کھینچا جائے تو کس قدر تکلیف ہوتی ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ بازو یا ٹانگ کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑنے کے لئے کھال کو معمولی سا کھینچناپڑتا ہے اس کے درد سے آدمی بلبلا اٹھتا ہے۔ اسی کھال کو کھینچ کر جب اتنا بڑھا دیا جائے گا جس کا ذکر احادیث مبارکہ میں ملتا ہے تو اس کافر کو کتنی شدید تکلیف ہوگی؟دنیا میں شاید اس کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں! اتنی بڑی جسامت کے کافر کو جب بڑے بڑے اژدہا اور بچھو بار بار ڈسیں گے اور اس کا گوشت نوچیں گے تو ان کے زہر کے طبعی اثرات کے باعث مدہوش ،مفلوج ،خون آلود اور ہانپتے کانپتے کافر کی ہیئت کا تصور کیجئے ۔ الحفیظ الامان! انسان کے اندر اپنے جسم کو اٹھانے کی طاقت بھی ایک حد تک ہی رکھی گئی ہے۔ یہی جسم اگر غیر معمولی طور پر موٹا ہوجائے تو انسان کے لئے اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا اس قدر مشکل ہوجاتا ہے کہ زندگی باعث عذاب بن جاتی ہے اور موٹاپے کی وجہ سے جسم میں دیگر بہت سے عوارض اس کے علاوہ پیدا ہوجاتے ہیں ۔ مثلًا دل کی بیماریاں،سانس کی بیماریاں نظر کی بیماریاں،ذیابیطس کی بیماریاں،جہنم میں کافر کی جسامت اس قدر بڑھانے سے دیگر عوارض عذاب کی شکل میں پیدا ہوں گے یا نہیں ؟یہ تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں ،لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ فرشتے گرزوں اور ہتھوڑوں سے اسے ماریں،یا سانپ اور بچھو کاٹیں ،کافر حرکت تک نہیں کرسکے گااور اگر کبھی فرشتے اسے زبردستی ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا کر لے جانا چاہیں گے تو کافر کے لئے ایک ایک قدم اٹھانا اس قدر مشکل ہوگا کہ وہ ایک الگ عذاب الیم کی شکل بن جائے گی۔ |