Maktaba Wahhabi

80 - 127
گویا اس طرح سترے کا اہتمام کر لیا۔ آپ نے جب کعبہ کے اندر نماز پڑھی تھی تو کعبہ کی دیوار کو سترہ بنایا تھا، دیوار کعبہ اور آپ کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔[1] 5 سیدنا انس بن مالک کا عمل:جناب انس بن مالک ایک جلیل القدر صحابی ہیں، ان کا عمل بھی مسجد حرام میں سترہ رکھنے کا مؤید ہے۔ چنانچہ یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں: ’رأیت انس بن مالک في المسجد الحرام قد نصب عصا یصلي إلیھا۔[2] ’’میں نے انس بن مالک کو دیکھا: انھوں نے مسجد حرام میں لاٹھی کھڑی کی، اس کو سترہ بنا کر نماز پڑھی۔‘‘ مذکورہ دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ مسجد حرام (بیت اللہ) میں بھی سترے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بلاشبہ وہاں نمازیوں کا ہر وقت بے پناہ ہجوم ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں بعض علمانے کثرت ہجوم کی وجہ سے اس کا جواز بھی تسلیم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے لوگ وہاں بالعموم اس کی پروا نہیں کرتے۔ لیکن ازدحام (کثرت ہجوم) یا لوگوں کا پروا نہ کرنا، سترہ نہ رکھنے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ شرعی دلائل خانہ کعبہ میں بھی سترہ رکھنے ہی کی تائید کرتے ہیں۔ و اللہ أعلم و علمہ أتم وأکمل۔ چند ضروری وضاحتیں: 1 بلی کے گزرنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا، جیسے سیاہ کتے، عورت وغیرہ کے گزرنے سے نماز قطع ہو جاتی ہے۔ (کما مرّ) 2 قطع سے مراد خشوع میں کمی نہیں بلکہ نماز کا ٹوٹ جانا ہے۔ (کما مرّ) 3 عورت سے مراد بالغہ عورت ہے۔ نابالغ بچی کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹے گی۔ 4 عورت، سیاہ کتے وغیرہ کے گزرنے سے نماز ٹوٹے گی۔ لیکن اگر یہ چیزیں نمازی کے آگے بیٹھی یا لیٹی ہوئی ہوں تو نماز نہیں ٹوٹے گی۔سید ہ عائشہ لیٹی ہوتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔
Flag Counter