سے غلطی بھی سرزدہو سکتی ہے اور اس سے درست فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ اور یہ بات یاد رکھیے کہ غلطی، غلطی کرنے والے پر پیش کی جائے گی مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی فضیلت اور قدرو منزلت تب تک قائم رہے گی جب تک وہ مجتہد رہے گا۔
۱۶…اہل اسلام کے بارے میں حسن ظن رکھنا اور ان کی گفتگو کو اس کے اچھے مقامات پر سمجھنا (بد گمانی نہ کرنا) اور ان کے عیبوں کو چھپانا کہ جس کے عیب ہوں اس سے عدم غفلت کی وجہ سے بیان کر بیٹھنے سے بچنا بھی دعوت الی اللہ کا ایک اُصول ہے۔ (یعنی طعن و تشنیع کے لیے لوگوں کے عیب ان کو نہ بتلائے جائیں۔ بلکہ اصلاح کی غرض سے اگر ہوں تو پھر درست ہے۔ مگر اسلوب قابل قبول ہو۔)
۱۷…اگر کسی شخص کی خوبیاں غالب ہوں تو سوائے کسی مصلحت کے اس کی برائیوں کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ اور اگر کسی آدمی کی برائیاں غالب ہوں تو پھر اس کی اچھائیوں کا تذکرہ نہ کیا جائے ، اس ڈر سے کہ عامۃ الناس پر معاملہ کہیں دھوکہ دینے والا نہ بن جائے۔
۱۸…شرعی الفاظ کا استعمال نہایت باریک بینی اور صحت و درستگی کے ساتھ ہو۔ اور غیر شرعی وغیرعربی اور پیچیدہ الفاظ کے استعمال سے بچنا بھی دعوت الی اللہ کے لیے مفید ہے۔ مثلاً :شوریٰ کی بجائے اسمبلی وغیرہ کے الفاظ۔
۱۹…فقہی مذاہب و مسالک کے بارے میں صحیح موقف اختیار کرنا بھی دعوت اِلی اللہ کا ایک ضابطہ ہے۔ یہ ہمارے اوپر ایک بہت بڑی فقہی ذمہ داری ہے کہ ہم اس کا دراسہ کریں اور ان فقہی مذاہب سے مستفید ہوں نہ کہ ان کے بارے میں تعصب اختیار کریں۔ اجمالاً ان کا ردّ نہ کریں البتہ ان میں سے ضعیف آراء سے اجتناب کریں اور کتاب و سنت کی روشنی میں ان میں سے صحیح، درست اور
|