’’اگر دین حنیف ، اسلام کا تعلق قیاس اور رائے سے ہوتا تو پھر موزوں کا نچلے والا حصہ (جو زمین پر لگتا ہے) ان کے اوپر والے حصے سے مسح کرنے میں زیادہ حق دار ہوتا۔ لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اوپر والے حصے پر مسح فرماتے تھے۔‘‘
۷…سیّدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
((مَا ابْتُدِعَتْ بِدْعَۃٌ:اِلاَّ ازْدادَتْ مَضیًا، وَلَا نُزِعَت سُنَّۃٌ، اِلاَّ ازْدادَت ہَربَا۔)) [1]
’’کوئی بھی بدعت ایجاد نہیں ہوتی مگر یہ ہے کہ وہ مزید کسی بدعت کو آگے بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ اور کوئی بھی سنت نہیں ہے کہ جسے چھین لیاجائے مگر یہ ہے کہ دین حنیف سے فرار میں اضافہ کا ہی سبب بنتاہے۔‘‘
۸…جناب عابس بن ربیعہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے امیر المؤمنین سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ حجر اسود کا بوسہ لیتے ہوئے فرما رہے تھے :
((أَمَا وَاللّٰہِ اِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضرُّ ولَا تَنفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّیْ رأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُقبُّلُکَ مَا قبَّلتُک۔)) [2]
’’اللہ کی قسم! بلاشبہ میں ضرور جانتا ہوں کہ بالتحقیق تو ایک پتھرہے۔ نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی تو نفع دے سکتاہے۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تیرا بوسہ کبھی نہ لیتا۔‘‘
|