((لَا تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ، وَاسْأَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ ، فإِذَا لَقَیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا، وَاعْلَمُوْا أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ۔)) [1]
’’مسلمانو! دشمن کا آمنا سامنا کرنے کی کبھی خواہش نہ کرو۔ بلکہ اللہ عزوجل سے عافیت کا سوال کیا کرو۔ چنانچہ جب تمہاری (میدانِ قتال میں) اُن سے ملاقات ہو تو پھر صبر و استقامت سے کام لو۔ اور اس بات کو جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔‘‘
اہل السنۃ والجماعۃ سلفی جماعت حقہ کے اہل ایمان واسلام مشکلات اور آزمائشوں کے وقت اللہ کی رحمت سے مایوس اور نا اُمید نہیں ہوا کرتے۔ اس لیے کہ اللہ عزوجل نے اس کو حرام ٹھہرایا ہے۔ بلکہ وہ آزمائش کے دنوں میں بہت جلد ملنے والی کشائش ، مصیبت کے بعد راحت اور یقینی مدد کی اُمید پر وقت گزارا کرتے ہیں ، اس لیے کہ وہ اللہ کے وعدہ پر پورا بھروسہ کیا کرتے ہیں۔ اور وہ جانتے ہیں کہ تنگی کے بعد آسانی آیا کرتی ہے۔ اور وہ اپنی ذوات میں ان مشکلات و مصائب کے اسباب تلاش کیا کرتے ہیں اور اس بات پر خوب غورو فکر کیا کرتے ہیں کہ یہ آزمائشیں اور مصیبتیں کہیں اُن کی اپنی غلطیوں کی ہی وجہ سے تو اُن کو نہیں پہنچیں اور وہ اس بات کا علم بھی رکھتے ہیں کہ اللہ کی مدد اُن کے معاصی ، گناہوں میں واقع ہونے یا اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تقصیر کی وجہ سے متاخر ہو رہی ہے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی قدر ہے:
﴿وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن
|