طاقت ور کیا اور وہ موٹا ہوگیا۔ اب یہ کھیتی اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو بھلی لگنے لگی۔ (اللہ تعالیٰ نے یہ) اس لیے (کیا) کہ کافر ان کو دیکھ کر جلیں (اہل ایمان کا عمل دیکھ کر کافروں کو غصہ چڑھے) ان لوگوں سے کہ جو ایمان لائے اور انہوں نے صالح اعمال کیے ان سے اللہ تعالیٰ نے بخشش کا اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ‘‘ (الفتح:۲۹۔ آیت پیچھے گزر چکی ہے۔)
اور اہل السنۃ والجماعۃ سلفی جماعت حقہ کے اہل ایمان اس بات پر پختہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ :اسلام میں دشمنی اور دوستی (اللہ کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیے نفرت) اہم ترین اصول عقیدہ میں سے ایک اصل ہے۔ اور اس اصل کا شریعت مطہرہ میں نہایت عظیم مرتبہ و مقام ہے جو کہ درج ذیل اسباب سے نہایت واضح ہو جاتا ہے۔
۱…یہ مولاۃ و معاداۃ’’ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کی گواہی کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ اس کا معنی یہ ہے کہ :ہر اُس چیز سے مکمل بیزاری و نفرت کا اظہار کہ جس کی اللہ عزوجل سے ہٹ کر (یااللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ ملا کر) عبادت و پوجا کی جاتی ہو۔ جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں :
’’اور ہم تو ہر قوم میں ایک پیغمبر بھیج چکے ہیں۔ (یہ حکم دے کر) کہ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرو اور طاغوت سے بچے رہو۔ (طاغوت یعنی ہر وہ ذات و شے کہ جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کی جائے۔ تو پیغمبروں کے سمجھانے سے) کسی کو اللہ نے سیدھی راہ پر لگا دیا اور کسی پر گمراہی جم گئی تھی۔ تو (اے قریش کے کافرو) ذرا اللہ کی زمین پر چل پھر کر دیکھو (پیغمبروں کو) جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ ‘‘[1] (النحل:۳۶۔ آیت پیچھے گزر چکی ہے۔)
|