يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ﴾ (القمر:۶ تا ۸)
’’تو (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) ان کا خیال چھوڑ دے جس دن بلانے والا (فرشتہ اسرافیل ان کو) ایسی چیز کی طرف بلائے گا جو دیکھنے میں نہیں آئی (قیامت کا ہولناک عذاب) یہ آنکھیں نیچے کئے ہوئے قبروں سے اس طرح نکل پڑیں گے جیسے ٹیڑیاں بکھر پڑیں۔ بلانیوالے کی طرف بھاگتے ہوئے چلیں گے۔ کافر کہیں گے یہ دن تو (بڑا) کٹھن (اجیرن) ہے۔‘‘
…ان دن ہر حرکت کمزور و مضمحل ہو کر خاموش ہو چکی ہوگی۔ خوف ودہشت میں مبتلا خاموشی چہار سو چھائی ہوگی۔
﴿يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ ۖ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَـٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا ﴿١٠٨﴾ يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلً﴾ (طٰہ:۱۰۸ تا ۱۰۹)
’’اس دن وہ بلانے والے فرشتے کے پیچھے ہولیں گے۔ کوئی بھی دوسری طرف نہیں مڑے گا۔ اور ڈر کے مارے اللہ الرحمن کے سامنے آوازیں نہایت پست ہوجائیں گی۔ کھسر پھسر (یا گنگناہٹ یا پاؤں کی آہٹ) کے سوا اور کچھ تو نہ سنے گا۔ اس دن کسی کی شفاعت کام نہ آئے گی مگر جس کو رحمن (سفارش کرنے کی) اجازت دے۔ اور اس کی بات پسند کرے۔ ‘‘[1]
…اس دن اعمال کے دفتر کھول کر پھیلا دیے جائیں گے اور ہر پوشیدہ فعل و
|