وَکَلَامِہِ وَعِلْمِہِ وَقُدْرَتِہِ، وَلَا یَسْکُتُوْنَ عَمَّا سَکَتَ عَنْہُ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُوْنَ لَھُمْ بِاِحْسَانٍ…)) [1]
’’اہل بدعات (مبتدعین) وہ لوگ ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ، اس کی صفات، اس کے کلام، اس کے علم اور اُس کی قدرت کے بارے میں کلام کرتے ہیں (یعنی ان تمام اُمور میں وہ کیف و کیفیت ، تاویل باطل اور تمثیل و تحریف کا شکار ہوتے ہیں۔) اور جن اُمور سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ اجمعین نے سکوت اختیار کیا ہے یہ اہل بدعات اُن کے بارے میں خاموشی اختیار نہیں کرتے۔ (بلکہ شیطان کے ہاتھوں منطق اور فلسفہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔) ‘‘
امام مالک رحمہ اللہ سے کسی آدمی نے اللہ عزوجل کی ذاتِ اقدس (اور اُس کی بعض
صفات) کے بارے میں سوال کیا کہ ؛ قرآنِ عظیم میں یہ جو آیا ہے:﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیo﴾ (طہ:۵) ’’اللہ الرحمن اپنے عرش عظیم و کریم پر مستوی ہو گیا۔‘‘ تو اس استواء کی کیفیت کیا ہے؟ اس کے جواب میں امام رحمہ اللہ نے فرمایا:
((اَ لْاِسْتِوَائُ غَیْرُ مَجْھُوْلٍ، وَالْکَیْفُ غَیْرُ مَعْقُوْلٍ ، وَالْاِیْمَانُ بِہِ وَاجِبٌ ، وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ، وَمَا اَرَاکَ اِلَّا ضَالًّا وَاَمَرَ بِہِ اَنْ یُخْرَجَ مِنَ الْمَجْلِسِ))[2]
’’استواء کا معنی عربوں کے ہاں بالکل معروف ہے۔ (وہ اس کا مفہوم جانتے ہیں۔) مگر یہاں قرآن میں مذکور استواء کی کیفیت و حالت (چونکہ بیان نہیں ہوئی اس لیے) عقل و فہم میں آنے والی نہیں اور اس پر ایمان رکھنا بہر طور
|