Maktaba Wahhabi

393 - 579
نہ تھے۔ جو کچھ گذشتہ زمانے میں ہوا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے ہے، کسی مخلوق کو اس کی قدرو قضا سے پناہ نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی سے لوحِ محفوظ میں لکھا جا چکا ہے۔ ساری مخلوق اگر اس بات کی کوشش کرے کہ کسی شخص کو کوئی نفع پہنچائے جسے اللہ تعالیٰ نے طے نہیں کیا ہے تو وہ ہر گز اس کی قدرت نہیں رکھتے اور اگر سب مل کر کسی کو ضرر پہنچانے کی کوشش کریں جسے اللہ نے اس کے مقدر میں نہیں کیا ہے تو وہ یہ بھی نہیں کر سکتے۔ جس طرح سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے۔[1] اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ﴾[یونس: ۱۰۷] [اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے] سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی وہ حدیث جس میں شکمِ مادر میں خلقِ انسان کا ذکر آیا ہے اور عملِ جنت جو عملِ نار میں بدل جاتا ہے[2] اور حدیث (( کُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ۔۔۔الخ )) [3] تقدیر کے خیر وشر پر دلیل ہیں۔ 12۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اللہ عزوجل کو انھیں سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے، نہ دل سے اور نہ خواب میں، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے۔[4] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نفی کرتی ہیں اور گذشتہ قول میں اس کا اثبات ہے۔ پس اثبات نفی پر مقدم ہے۔ ابو بکر بن سلیمان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کو گیارہ
Flag Counter