حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک آدمی کو مال غنیمت پر محافظ مقرر کیا گیا تھا جس کا نام کرکرہ تھا ، وہ جب فوت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ آگ میں ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (اس کا سامان)جا کر دیکھا تو اس میں مال غنیمت سے چرائی ہوئی ایک کملی پائی گئی۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ 192 تقسیم سے پہلے مال غنیمت کی کسی چیز کو بیچنا یا خریدنا منع ہے۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ قَالَ نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنْ شِرَائِ الْمَغَانِمِ حَتّٰی تُقْسَمَ ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ[1] (صحیح) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت تقسیم ہونے سے پہلے اسے خریدنے سے منع فرمایا ہے۔اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ 193 جنگ کے بغیر حاصل ہونے والی دشمن کی املاک مال فے کہلاتی ہیں۔ مسئلہ 194 مال فے بیت المال کا حق ہے جو اسلام اور مستحق مسلمانوں کی بہبود پر خرچ ہونا چاہئے۔ عَنْ عُمَرَ قَالَ : کَانَتْ اَمْوَالُ بَنِی النَّضِیْرِ مِمَّا اَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِمَّالَمْ یُوْجِفْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ بِخَیْلٍ وَلاَ رِکَابٍ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ[2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (مفتوح قبیلہ) بنو نضیر کے مال ان مالوں میں سے تھے ، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے جن پر مسلمانوں نے گھوڑوں اور اونٹوں سے چڑھائی نہیں کی۔ (یعنی انہیں حاصل کرنے کے لئے جنگ نہیں کی) اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ وضاحت : مال فے کے حقدار قرآن مجید کی رو سے اللہ ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار، یتیم ، مسکین اور مسافر ہیں۔ ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر37 |