اور وہ بڑے تعجب سے آپ کو دیکھتے کیوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ رونے والے تھے، جب وہ قرآن کی تلاوت کرتے تو اپنے آنسووں پہ قابو نہ پاسکتے ۔ [1] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ورد کرتے ہوئے کسی آیت کریمہ کی تلاوت کرتے تو یوں روتے کہ ان کا سانس رک جاتا اور وہ بے ہوش ہو کہ گر جاتے ، پھر ایک دو دن تک گھر سے نہ نکل سکتے حتی ٰ کہ ان کی عیادت کے لیے لوگ مریض سمجھ کر آنے لگتے۔[2] عبداللہ بن شدادبن ہاد[3] کہتے ہیں! میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے کراہنے کی آواز سنی حالاں کہ میں صبح کی نماز میں آخری صف میں تھا آپ سورۃ یوسف کی تلاوت کر رہے تھے: ﴿اِنَّمَا اَشْکُوْابَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ﴾ ’’بس میں تو اپنی بے قراری اور غمی کی شکایت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف کرتا ہوں۔‘‘[4] ابو عبید نے عبید بن عمیر[5] کے متعلق بیان کیا کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر پہنچے ’’ان کی آنکھیں بوجہ رنج و غم کے سفید ہو چکی تھیں اور وہ اس غم کو دبائے ہوئے تھے، تو اس قدر روئے کہ تلاوت نہ کر سکے اور رکوع میں چلے گئے۔ [6] ابو بردہ[7] فرماتے ہیں: ابو موسیٰ اشعری جب یہ آیت پڑھتے تو بہت روتے ’’ اسے |