پھر یہ سنت تمام بلاد اور ہر علاقہ کے قراء کے ہاں ثابت ومشہور ہے اور وہ اس پر عمل کرتے ہیں جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں۔ لہٰذایہ سنت اس قدر مشہورہے کہ اس کو اسناد کے ساتھ ثابت کر نے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ [1] ابن جزری فرماتے ہیں اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ تکبیرات مکہ کے قراء علماء آئمہ اور ان کے راویوں کے ہاں اس قدر صحیح مشہوراور عام ہے کہ تواتر کی حد کو پہنچتی ہے یہ روایت موسیٰ کی ابو عمرو سے، عمری کی ابو جعفر سے بالکل صحیح ہے تمام قراء سے یہ عمل منقول ہے یہ امام ابو الفضل رازی ، ابوقاسم ہذلی ، حافط ابو علا سے بھی مر وی ہے اسی پہ تمام قراء کا تمام علاقوں میں عمل ہے وہ ختم قرآن کے وقت محافل اوراجتماعات پہ بھی اس پہ عمل کر تے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر تو رمضان المبارک کی راتوں میں نماز تراویح میں اس کو کسی حال میں بھی نہیں چھوڑ تے۔ [2] |