ہیں جن میں بہ تکلف رونے کی ترغیب ہے تاہم وہ سب کی سب ضعیف ہیں ان میں سے ایک روایت وہ ہے جس کو ابن ماجہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’یہ قرآن حزن (غمگین حالت )کے ساتھ نازل ہوا ہے پس جب تم اس کو پڑھو تو رویا کرو اگر رونا نہ آئے تو رونے کی سی کیفیت بنالو ۔ اس کو لب ولہجہ کے ساتھ پڑھو جو ایسے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘[1] اسی طرح عبدالملک بن عمر[2] سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں تم پہ ایک سورت کی تلاوت کرنے لگا ہوں جو رویا اس کے لیے جنت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پڑھا تو کوئی شخص نہ رویا آپ نے دوہرائی تو کوئی شخص نہ رویا آپ نے دوہرائی پھر تیسری مرتبہ پڑھی اور فرمایا رولو اگر رونا نہیں آتا تورونے کی کوشش کرو۔[3] اگر ان روایات سے تکلّفانہ رونے کی دلیل لی بھی جائے تو پھر اس سے ایسا رونا مراد ہے جو معانی کو ذھن میں لاتے ہوئے غور و فکر کے ساتھ ہو اور وقت تلاوت خالق کی عظمت ذہن میں ہو اور اس کے ساتھ خشوع و خضوع پہ حریص ہو اور اللہ تعالیٰ کے سامنے رونے کی صورت کے ساتھ گریہ زاری کرے نہ کہ ان محرابوں میں رونے والوں کی طرح جو سو ا ئے تکلف کے کچھ بھی نہیں۔ سچا رونا تو وہ ہے جس میں غورو فکر ہو جیسا کہ ہمارے اسلاف کا حال ہے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں جائے نماز بنائی وہاں نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے تو وہاں مشرک عورتوں اور بچوں کا ہجوم لگ جاتا |