(شیطان) اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالاں کہ وہ تم سب کا دشمن ہے۔[1] عبداللہ بن اَبی ملیکہ کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ کا سفر کیا ، آپ دو رکعتیں پڑھتے جب کہیں قیام فرماتے نصف شب کا قیام کرتے جس میں ٹھہر ٹھہر کر حرف بہ حرف رو رو کر اس آیت کی تلاوت کرتے: ﴿وَجَاء تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِکَ مَا کُنتَ مِنْہُ تَحِیْدُ﴾ ’’اور موت کی بے ہوشی حق لے کر آپہنچی یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا۔‘‘[2] ابو وائل[3] کہتے ہیں: ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے تو ہمارے ساتھ ربیع بن خیثم[4] بھی تھے، ہم ایک لوہار کے پاس سے گزرے تو عبداللہ بن مسعود کھڑے ہو کر اس کے لوہے کو آگ میں ڈالنے کا منظر دیکھنے لگے، ربیع نے بھی اس کی طرف دیکھا کہ لوہا پگھل کر اس میں گرنے لگا ہے پھر عبداللہ چلے یہاں تک کہ ہم فرات کے کنارے ایک جگہ (أقون) [5] پہ آئے تو وہاں بھی عبداللہ بن مسعود نے آگ بھڑکتی دیکھی، اسے دیکھ کر ان آیات کی تلاوت کی: ﴿وَإِذَا أُلْقُوا مِنْہَا مَکَاناً ضَیِّقاً مُقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُوراً۔لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوراً وَاحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً کَثِیْراً﴾ (الفرقان: 12، 13) |