جانتے ہیں۔ یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسوبہنے لگے، میں منہ موڑ کر واپس چلا آیا اور دیوار پھلانگ کر باہر آ گیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن میں مدینہ کے بازار سے گزر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ علاقۂ شام کا ایک نبطی جو مدینہ میں غلہ فروخت کرنے آیا تھا لوگوں سے پوچھ رہا ہے: کوئی شخص ہے جو مجھے کعب بن مالک کا بتا سکے؟ لوگ میری طرف اشارہ کرکے اسے بتانے لگے۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے مجھے شاہ غسان کا ایک خط دیا جس میں لکھا ہوا تھا: ’’اما بعد۔ کعب بن مالک! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمھارے صاحب نے بے وفائی کی ہے اور تمھیں اپنے سے دور کر دیا ہے۔ اللہ نے تمہیں ذلت کے گھر میں رہنے اور ضائع ہونے کے لیے نہیں بنایا۔ ہمارے پاس آجاؤ ہم تمھاری غم خواری کریں گے۔‘‘ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے خط پڑھا اور کہا: ((إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ)) اہلِ کفر میری طمع کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک اور آزمائش ہے۔ پھر فوراً خط تنور میں جا پھینکا اور بادشاہ کی پیشکش پر مطلق دھیان نہیں دیا۔ غور کیجیے کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے لیے دربارِ شاہی کا دروازہ کھلا۔ رؤسائے عالم انھیں اپنا مصاحب بنا کراعزاز بخشنا چاہتے ہیں۔ مدینہ میں بسنے والے چہروں کے تیور بدل چکے ہیں۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ سلام کرتے ہیں تو جواب نہیں دیاجاتا۔ سوال کرتے ہیں توسنا نہیں جاتا۔ اِس کے باوجود انھوں نے کافروں کی طرف التفات نہیں کیا۔ شیطان انھیں ڈگمگا دینے اور خواہش کا |