لیے اجنبی ہوگئے۔ اب میں گاہے گاہے بازار جانے لگا لیکن کوئی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا۔ لوگوں کے چہرے بدل گئے۔ یہ وہ چہرے نہیں تھے جن سے ہم واقف تھے۔ درودیوار کاٹ کھانے کو دوڑتے۔ یہ وہ در و دیوار نہیں تھے جنھیں ہم پہچانتے تھے۔ زمین ہمارے لیے بیگانہ ہو گئی۔ یہ وہ زمین نہیں تھی جس سے ہم شناسا تھے۔ ’’میرے دونوں ساتھی تو گھروں میں پڑے دن رات روتے رہتے تھے۔ اپنے سر باہر نہ نکالتے اور راہبوں کی طرح پُر مشقت عبادت کرتے ۔ میں جوان اور مضبوط آدمی تھا۔ گھر سے نکلتا، مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھتا اور بازاروں میں گھومتا پھرتا تھا۔ کوئی مجھ سے کلام نہیں کرتا تھا۔ مسجد میں جاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر آپ کو سلام کرتا۔ دل میں کہتا کہ اللہ کے رسول نے میرے سلام کے جواب میں لب ہلائے یا نہیں۔ پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑھتا اور دزدیدہ نظروں سے آپ کی طرف دیکھتا۔ جب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ کی طرف توجہ کرتا تو آپ دوسری طرف دیکھنے لگتے۔ جب لوگوں کی یہ بے اعتنائی بہت طویل اور ناقابل برداشت ہو گئی تو ایک دن میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پھلانگ کر اندر چلا گیا۔ یہ صاحب میرے چچازاد بھائی اور میرے محبوب ترین دوست تھے۔ میں نے انھیں سلام کیا لیکن اللہ کی قسم! انھوں نے میرے سلام کا جواب نہ دیا۔ میں نے ان سے کہا: اے ابوقتادہ! میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم مجھے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دوست جانتے ہو؟ لیکن وہ خاموش رہے۔ میں نے ان سے دوبارہ یہی سوال کیا لیکن وہ پھر خاموش رہے۔ میں نے پھر یہی بات دہرائی تو کہنے لگے: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر |