مسلمان مدینہ پہنچ گئے۔ اب میں نے سمجھ لیا کہ سچ کے سوا کسی چیز سے نجات ملنے والی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے مسجد گئے۔ دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر لوگوں کی خاطر مسجد ہی میں بیٹھ گئے۔ پیچھے رہ جانے والے آتے، عذر بیان کرتے، قسم کھاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کا ظاہر قبول کرتے اور باطن اللہ کے سپرد کرکے اُن کے لیے دعائے مغفرت کر دیتے تھے۔ میں بھی حاضرِ خدمت ہوا اور سلام عرض کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر اُس آدمی کی طرح مسکرائے جو سخت غصے میں ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ’’تم کیوں پیچھے رہ گئے؟تم نے تو سواری بھی خرید رکھی تھی۔‘‘ میں نے جواب دیا: ’’جی ہاں۔‘‘ ’’پھر پیچھے کیوں رہ گئے؟‘‘ آپ کے سوال میں رنج و غم اور خفگی کے آثار نمایاں تھے۔ میں کہنے لگا: ’’اے اللہ کے رسول! میں آپ کے علاوہ اہلِ دنیا میں سے کسی اور کے پاس بیٹھتا تو واللہ! آپ دیکھتے کہ میں کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے اُس کی ناراضگی سے بچ جاتا۔ اللہ نے مجھے بحث و تکرار کی خصوصی صلاحیت سے نوازا ہے۔ لیکن واللہ! میں جانتا ہوں کہ آج میں نے آپ کو جھوٹ بول کر راضی کر لیا تو جلد ہی میرا پول کھل جائے گا اور اللہ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا۔ اور اگر میں سچ کہہ دوں تو وقتی طور پر آپ ضرور ناراض ہوں گے لیکن اُمید ہے کہ یوں اللہ میرا گناہ معاف کر دے گا۔ اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میرا کوئی عذر نہیں۔ واللہ! میں کبھی اتنا قوی اور آسودہ حال نہیں رہا جتنا اب ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں خاموش ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام( رضی اللہ عنہم )کی طرف دیکھا |