Maktaba Wahhabi

79 - 131
’’تو پھر کیا کریں؟‘‘ لوگوں نے بے قراری سے پوچھا۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’جو آدمی میرے گھر چلا جائے وہ امن میں ہے۔ اور جو مسجد حرام میں آ جائے وہ بھی امن میں ہے۔ اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اُسے بھی امان ہے۔‘‘ اُنھوں نے مزید کہا: ’’قریش کے لوگو! اسلام لے آؤ۔ سلامت رہو گے۔‘‘ جونہی یہ بات کہی، اُن کی اہلیہ ہند بنت عتبہ دوڑی ہوئی آئی اور ان کے روبرو کھڑی ہوگئی، ان کی ڈاڑھی پکڑ کر کھینچی اور کہا: ’’آلِ غالب! اس احمق بڈھے کو مار ڈالو۔‘‘ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے اُس سے کہا کہ میری ڈاڑھی چھوڑ۔ قسم کھا کر کہتا ہوں، اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو تمھاری گردن مار ڈالی جائے گی۔ جا، گھر چلی جا۔ اِس پر ہند نے اُن کی ڈاڑھی چھوڑ دی۔[1] یوں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا یہ کرشمہ بھی دکھائی دیا کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے اور اُنھوں نے اپنی قوم کو قبولِ اسلام کی دعوت دے ڈالی۔ اُن کے ایک بیٹے یزید تھے۔ یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ۔ اُنھیں اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کے باعث یزید الخیر کہا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اُنھیں عمالِ حکومت میں شامل کیا تھا۔ بعد ازاں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت ہند بنت عتبہ بھی اسلام لے آئیں۔ انھوں نے گھر میں رکھے تمام بت توڑ ڈالے۔ وہ بتوں کو توڑتی جاتیں اور کہتی جاتیں: ’’ہم تو تمھارے متعلق بڑے فریب میں مبتلا تھے۔‘‘ [2]
Flag Counter