حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو پہاڑ کے قریب لے گئے۔ اسلامی لشکر کے مختلف دستے اُن کے سامنے سے گزرنے لگے۔ ایک دستہ گزرا تو حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ قبیلۂ اسلم کے لوگ ہیں۔ وہ بولے: قبیلۂ اسلم سے مجھے کیا لینا دینا۔ ایک اور دستہ گزرا۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ یہ جُہینہ کے لوگ ہیں۔ اُنھوں نے کہا: مجھے جُہینہ سے کیا مطلب۔ آخر میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کی جلو میں گزرے۔ یہ مقدس دستہ پوری طرح سے زرہ بند تھا اور لوہے کی باڑ سی گزرتی معلوم ہوتی تھی۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ یہ مہاجرین و انصار کی جلو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اُنھوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمھارے بھتیجے کی بادشاہت تو بڑی زبردست ہو گئی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں فوراً ٹوک دیا اور کہا: ’’ارے! یہ نبوت ہے۔‘‘ ’’ہاں۔ بالکل۔‘‘ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے تائید کی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ اب جلدی سے اپنی قوم کے پاس جاؤ اور اُنھیں خبردار کرو۔ چنانچہ وہ وہاں سے روانہ ہوئے۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مکہ میں پہنچے۔ مسجد حرام میں داخل ہوئے اور بآواز بلند کہا: ’’قریش کے لوگو! محمد اتنا بڑا لشکر لے کر آپہنچے ہیں کہ اُس کا سامنا کرنے کی طاقت تم میں نہیں۔‘‘ |