فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اِنھیں لے جائیے۔ ہم نے اِنھیں امان دی۔ صبح اِنھیں میرے پاس لائیے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اُنھیں ساتھ لیے لوٹ آئے۔ اگلی صبح خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان سے کہا کہ ابوسفیان! کیا ابھی تک یہ بات تمھاری سمجھ میں نہیں آئی کہ اللہ کے سوا کوئی خدائے برحق نہیں۔ اُنھوں نے عرض کیا جی ضرور۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کوئی خدا ہوتا تو میرا کچھ نہ کچھ بنا دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ بات بھی تمھاری سمجھ میں ابھی تک نہیں آئی کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ وہ بولے: میرے ماں باپ آپ پر فدا! اِس کے متعلق ابھی دل میں کچھ خلش باقی ہے۔ اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا کہ اِس سے پہلے کہ تمھاری گردن مار دی جائے، حق کی گواہی دے دو۔ تبھی حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )، اللہ کے رسول ہیں۔ اُن کے ساتھ حضرت حکیم بن حزام اور حضرت بدیل بن ورقا رضی اللہ عنہما بھی اسلام لے آئے۔ آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جائیے، ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی کے قریب وادی کی تنگنائی میں لے جائیے تا کہ وہ وہاں سے گزرتی خدائی فوجوں کا نظارہ کریں۔[1] حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ابو سفیان اعزاز پسند شخص ہیں۔ اِنھیں کوئی اعزاز عطا کیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ جو آدمی، ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اُسے امان ہے۔ جو آدمی، حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہو جائے اُسے بھی امان ہے۔ جو آدمی، مسجدِ (حرام) میں داخل ہو جائے اُسے بھی امان ہے۔ اور جو آدمی اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اُسے بھی امان ہے۔ |