فائدہ پہنچا پائے گا۔ پھر بھی تم بنو کنانہ کے سردار ہو۔ جا کر خود ہی لوگوں میں تجدید ِصلح کا اعلان کر دو اور لوٹ جاؤ۔ میرا نہیں خیال کہ یہ اقدام بھی تمھیں کچھ فائدہ دے گا تا ہم اِس کے سوا تمھارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ ابو سفیان مسجد نبوی میں گئے۔ وہاں موجود لوگوں میں تجدید ِصلح کا اعلان کیا اور سواری پر بیٹھ کر تیزی سے مکہ لوٹ گئے۔ اُن کی سفارت کاری بُری طرح ناکامی سے دو چار ہوئی تھی۔[1] مسلمانوں نے مکہ کی طرف پیش قدمی کی۔ ابو سفیان یہ دیکھنے کے لیے مکہ سے باہر آئے کہ اتنا بڑا لشکر کس کا ہے جو مکہ کے باہر فروکش ہے۔ راستے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ اُنھوں نے ابو سفیان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما ہیں۔ اگر وہ مکہ میں بزور داخل ہوئے تو قریش کی خیر نہیں۔‘‘ ابو سفیان نے گھبرا کر کہا: ’’میرے ماں باپ تم پر فدا! اب کیا چارہ کار ہے۔‘‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اُنھیں سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا اور اسلامی لشکر کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھے۔ رات کا وقت تھا۔ مجاہدین نے جابجا آگ کے الاؤ جلا رکھے تھے۔ اُن کی تعداد دس ہزار تھی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، ابو سفیان کو ہمراہ لیے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرے تو اُنھوں نے ابو سفیان کو پہچان لیا۔ وہ خیمۂ نبوی کی طرف بھاگے۔ اُدھر وہ دونوں بھی جا پہنچے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں ابو سفیان کی گردن مار ڈالوں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں نے ابو سفیان کو پناہ دی ہے۔ آپ نے |