مجلسِ مشاورت نے فوری طور پر یہ طے کیا کہ ابو سفیان کو مدینہ روانہ کیا جائے تا کہ وہ معاہدۂ صلح کی تجدید کر آئیں۔ چنانچہ ابو سفیان مدینہ آئے اور اپنی دختر ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اُنھیں بسترِ نبوی پر نہ بیٹھنے دیا۔ وہ بولے: ’’بیٹی! یہ بستر میرے لیے مناسب نہیں یا میں اِس بستر کے لیے مناسب نہیں۔ وہ بولیں: ’’یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے اور آپ مشرک پلید ہیں۔ اِس لیے آپ اِس بستر پر نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘ بعد ازاں وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور آپ سے معاہدۂ صلح کی تجدید کا مطالبہ کیا۔ آپ نے انھیں کوئی جواب نہ دیا۔ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے اور اُن سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کر دو، معاہدۂ صلح کی تجدید کر دیں۔ اُنھوں نے جواب دیا کہ میں ایسا نہیں کرنے والا۔ تب وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اُن سے سفارش کرنے کو کہا۔ اُنھوں نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور تمھارے لیے سفارش کروں؟! اللہ کی قسم! مجھے صرف چیونٹیاں بھی ملیں گی نا، تب بھی میں اُن کے ہمراہ تم سے جہاد کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کورا جواب سن کر ابو سفیان، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اُنھیں قرابت کا واسطہ دے کر کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے حضور سفارش کر دو کہ وہ معاہدۂ صلح کی تجدید کر دیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ بخدا! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس سلسلے میں کوئی بات نہیں کر سکتے۔ ابو سفیان نے کہا کہ پھر بتاؤ، میں کیا کروں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ واللہ! میرا نہیں خیال کہ اب تمھیں کوئی اقدام |