جواب دیا کہ نہیں۔ وہ عہد شکنی نہیں کرتے۔ تمھارے تمام جوابات اگر سچائی پر مبنی ہیں تو وہ صاحب بہت جلد اِس زمین کے بھی مالک بن جائیں گے جو اس وقت میرے قدموں تلے ہے۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ تب سے میرا یقین اِس امر پر پختہ ہو گیا کہ اسلام غالب آ کر رہے گا۔[1] حدیبیہ میں جو معاہدۂ صلح طے پایا تھا اس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ قبائلِ عرب، فریقین میں سے کسی ایک فریق کے ساتھ اس معاہدے میں شرکت کا اختیار رکھتے ہیں۔ چنانچہ بنو بکر قریش کے ساتھ اس معاہدے میں شریک ہوئے اور بنو خزاعہ جو اُن کے حریف تھے، مسلمانوں کے ساتھ اِس معاہدے میں شریک ہوئے۔ بنوبکر جو قریش کے حلیف تھے، اُن کی نیت میں کھوٹ تھا۔ اُنھوں نے سوچا پرانے حساب چکانے کا وقت آ پہنچا۔ چنانچہ اُنھوں نے بنو خزاعہ کے ایک کنویں پر دھاوا بول دیا اور اُن کے کئی افراد کو نہایت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قریش نے بھی بنو بکر کی مدد کی۔ خزاعہ کا ایک آدمی کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلا اور سیدھا مدینہ پہنچا۔ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نہایت دردمندانہ فریاد کی کہ قریش مکہ نے معاہدہ صلح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنوبکر کی مدد کی جنھوں نے ہمارے درجنوں افراد کو سفاکانہ طریقے سے مار ڈالا۔ آپ نے اُسے یقین دہانی کرائی کہ تم بے فکر رہو۔ تمھاری مدد کی جائے گی اور قریش و بنوبکر کو اُن کی عہد شکنی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ قریش مکہ اور بنو بکر کا یہ ظالمانہ اقدام معاہدۂ صلح کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف تھا۔ قریش کو بھی جلد ہی اِس کا احساس ہو گیا کہ اُنھوں نے معاہدۂ صلح کی خلاف ورزی کر ڈالی ہے۔ اُن کی |