آئندہ برس میدانِ بدر میں پھر معرکہ آرائی ہو گی۔ [1] اگلے برس مسلمانانِ مدینہ وعدے کے مطابق میدانِ بدر میں پہنچے اور وہاں آٹھ روز قیام کیا لیکن مکی لشکر مقابلے میں نہیں آیا۔ مکی لشکر مکہ سے روانہ ہوا تھا لیکن بمشکل ایک منزل کے فاصلے پر مرالظہران ہی میں پہنچ پایا اور مارے خوف کے وہیں سے پلٹ گیا۔ [2] مکی لشکر کی زمامِ قیادت اس مرتبہ بھی ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی۔ اس کے ایک برس بعد عرب کے تمام قبائل اکٹھے ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ یہ غزوۂ خندق کا موقع تھا۔ تمام قبائل بری طرح ناکام ہو کر لوٹے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب ہم اُن پر حملہ کیا کریں گے۔ وہ ہم پر حملہ نہیں کیا کریں گے۔‘‘ [3] چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اگلے برس دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ مکاتیبِ رسالت اور تبلیغی وفود تمام دنیا میں پہنچنے لگے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مکتوب اسکندریہ (مصر) کے حکمران ہرقل کے نام بھی روانہ فرمایا۔ آپ نے یہ خط حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ روانہ فرمایا۔ ہرقل نے خط وصول کیا اور حضرت دحیہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ واللہ! آپ کے صاحب حقیقت میں نبی مرسل ہیں۔ ہم اُنھیں اُن کے حُلیے سے پہچانتے ہیں جو ہماری کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر اُس نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور اپنے پادریوں کے پاس گیا جو کلیسا میں تھے۔ اُس نے اُن سے کہا کہ ہمیں احمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کا نامۂ گرامی موصول ہوا ہے۔ وہ ہمیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔ اس لیے آئیے، ہم اُن کی اتباع اور تصدیق کرتے ہیں۔ یوں ہماری دنیا و آخرت سنور جائے گی۔ |