Maktaba Wahhabi

70 - 131
معاملہ رفع دفع ہو جائے گا اور لوگ کہیں گے کہ ہم لڑکی کو واپس لے آئے تھے تو تم چپکے سے اُس کو ساتھ لینا اور اُس کے والد کے ہاں چھوڑ آنا۔ یہ نہایت سمجھ داری کی بات تھی۔ کنانہ نے اِس کے موافق عمل کیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو واپس لے آیا۔ چند دن میں جب معاملہ رفع دفع ہو گیا تو وہ ایک رات حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر چپکے سے نکلا اور اُنھیں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر آیا۔ اِس موقع پر ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور ایسی حکمت عملی اپنائی کہ سردارانِ قریش بھی نہیں بھڑکے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا بھی صحیح سلامت مدینہ پہنچ گئیں۔[1] غزوۂ بدر کو برپا ہوئے ابھی ایک ہی برس ہوا تھا کہ مشرکینِ مکہ نے پھر سے جمعیت اکٹھی کی۔ بڑے سرداروں نے روپیہ دیا جن میں ابو سفیان بھی شامل تھے۔ جبلِ احد کے دامن میں مسلمانانِ مدینہ اور مشرکینِ مکہ ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے آئے۔ مشرکین کی زمامِ قیادت اِس مرتبہ خود ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی۔ جنگ کے پہلے مرحلے میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا۔ مشرکین نے راہِ فرار اختیار کی۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن تیر اندازوں کو پہاڑ پر تعینات کیا تھا اور اُنھیں ہر حال میں وہاں قائم رہنے کی ہدایت کی تھی، اُن تیر اندازوں نے جب یہ منظر دیکھا تو میدان میں اُتر آئے۔ خالد بن ولید جو مشرکین کے ایک دستے کی قیادت کر رہے تھے گویا اسی انتظار میں تھے۔ اُنھوں نے پلٹ کر حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں مشرکینِ مکہ کو جزوی فتح حاصل ہوئی۔ جاتے جاتے ابو سفیان اور مسلمانوں کے درمیان جو بات چیت ہوئی اُس میں یہ بھی طے ہوا کہ
Flag Counter