صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ چنانچہ ابوالعاص بن ربیع کو چھوڑ دیا گیا۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے وعدہ لیا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ آنے دیں گے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری کو اُن کے ہمراہ روانہ کیا اور فرمایا کہ وادیِ یاجج میں ٹھہرنا۔ زینب وہاں سے گزرے تو اُسے ساتھ لیتے آنا۔ ابو العاص بن ربیع نے مکہ پہنچ کر زینب رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم اپنے والد کے پاس جا سکتی ہو۔ اُنھوں نے رختِ سفر باندھ لیا۔ ابو العاص نے اپنے بھائی کنانہ بن ربیع کو اُن کے ہمراہ روانہ کیا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہودج میں سوار تھیں جبکہ کنانہ اونٹ کی نکیل تھامے آگے آگے چلتا تھا۔ تیر وں بھرا ترکش اُس نے کاندھے پر لٹکا رکھا تھا۔ وہ بڑا ماہر تیر انداز تھا۔ قریشِ مکہ کے چند سرداروں کو زینب رضی اللہ عنہا کے روانہ ہونے کی خبر ملی تو وہ اُن کے تعاقب میں نکلے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا ابھی ذی طویٰ میں پہنچی تھیں۔ کنانہ نے اُن لوگوں کو قریب آتے دیکھا تو ٹھہر گیااور ترکش میں سے تیر نکال کر زمین پرپھیلا دیے۔ اور بآوازِ بلند کہا کہ جو آدمی میرے قریب آیا، میں اُس پر تیر برساؤں گا۔ ابوسفیان کو پتہ چلا تو وہ بھی قریش کے چند سرکردہ افراد کے ہمراہ وہاں پہنچ گیا۔ کنانہ سے کہا کہ اپنے تیر پرے ہٹاؤ۔ ہم تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ کنانہ نے تیر کمان سے الگ کیا تو وہ اُس کے قریب آئے اور کہا کہ تم نے ٹھیک نہیں کیا۔ دن دیہاڑے اِس عورت کو لے کر نکل کھڑے ہوئے حالانکہ بد رمیں ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کے متعلق تم اچھی طرح جانتے ہو۔ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی بیٹی کو یوں سب کے سامنے لے جاؤ گے تو لوگ اسے اپنی کمزوری ہی خیال کریں گے۔ بخدا! ہمیں اِسے یہاں روک کر رکھنے کی کچھ ضرورت نہیں لیکن تم فی الحال اِسے واپس لے آؤ۔ چند دنوں میں |