چاہے کچھ بھی ہو، وہ دربار میں پہنچے تو نجاشی نے اُن سے پوچھا: ’’یہ کیسا دین ہے جس کی بنا پر تم لوگوں نے اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کر لی ہے؟پھر نہ تو تم میرے دین میں داخل ہوئے ہو نہ کسی اور کے دین میں؟ اِس بات کا جواب مسلمانوں کے ترجمان حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے دیا۔ انھوں نے نہایت پُر اثراور غایت درجہ فصیح و بلیغ تقریر کی۔ اُنھوں نے کہا: ’’اے بادشاہ! ہم جاہلیت میں مبتلا قوم تھے۔ ہم بت پوجتے، مردار کھاتے، بدکاریاں کرتے اور عزیز و اقارب سے تعلق توڑتے تھے۔ ہم پڑوسیوں سے بدسلوکی کرتے تھے۔ ہمارا طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کی عالی نسبی، سچائی، امانتداری اور پاکدامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی۔ اُس نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا۔ اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں اور اُسی کی عبادت کریں۔ اُس کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، اُنھیں چھوڑ دیں۔ اُس نے ہمیں سچ بولنے ، امانت ادا کرنے، قرابت جوڑنے، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری و خونریزی سے باز رہنے کا حکم دیا۔ اور فواحش میں ملوث ہونے، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا۔ اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیاکہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اس نے ہمیں نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا:’’ہم نے اس پیغمبر کو سچا مانا، اُس پر ایمان لائے اوراُس |