Maktaba Wahhabi

107 - 131
اس نے اصحمہ کو کشتی میں بٹھایا اور اسے عرب میں لے آیا۔ اصحمہ نے خود بتایا کہ وہ ایک وادی میں اپنے آقا کی بکریاں چراتا تھا۔ اُس وادی کو بدر کہا جاتا تھا اور وہاں پیلو بکثرت اگتا تھا۔ یوں وہ مدتوں عرب میں رہا۔ عربی زبان سیکھی اور خود کو عربی اوصاف سے آراستہ کیا۔ اصحمہ نجاشی نے یہ بات اس وقت بتائی تھی جب انھیں معرکۂ بدر کی اطلاع ملی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ تاریخی روایات کہتی ہیں کہ حبشہ میں قحط کا دور دورہ تھا۔ ایک روز خزاں کا ایک بادل امڈ آیا۔ اصحمہ کے چچا شاہِ حبشہ نے اُسے دیکھا تو طلب بارش کے لیے نکلا اور اُس بادل تلے آیا۔ یکایک اُس پر آسمانی بجلی گری اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ کار پردازانِ حبشہ اُس کے بیٹوں کی طرف بھاگے۔ دیکھا کہ وہ نکمے معاملاتِ حکومت سے یکسر بے بہرہ ہیں اور حکومت سنبھالنے کے لائق نہیں۔ وہ حیران ہوئے کہ کیا کریں اور کسے بادشاہ بنائیں۔ سیاسی بحران نے طول پکڑا تو انھوں نے آپس میں کہا کہ واللہ! تمھارا بادشاہ تو وہی تھا جسے تم نے بدو کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا۔ حبشہ کی خیریت چاہتے ہو تو اسے لے آؤ اور بادشاہ بنا دو چنانچہ وہ اصحمہ کی تلاش میں نکلے اور تلاش کرتے ہوئے عرب میں آئے۔ اصحمہ سے ملے، معافی چاہی اور ساتھ لے جا کر اسے تختِ شاہی پر بٹھا دیا۔ یہ تھی اصحمہ نجاشی کی سرگزشت۔[1] اُدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسلمانوں کو حبشہ کی راہ دکھائی تو وہ مکہ سے ہجرت کرکے بلاتاخیر حبشہ آگئے۔ قریشِ مکہ نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ تو حبشہ جاکر نہایت اطمینان سے رہنے لگے ہیں تو انھوں نے اپنا سفارتی وفد قیمتی تحفے دے کر نجاشی کے
Flag Counter