قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے لشکریوں کے ساتھ گھل مل جائے اور ان کے لیے ایثار و قربانی کا ماڈل بن کر رہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر زور دیتا ہے اور اتحاد و یگانگت کا سبق سکھاتا ہے۔ یہ ترغیب بھی دیتا ہے کہ ہم دوسروں کے لیے جتنا کچھ کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس قسم کی اعلیٰ صفات قرآن اور صاحب قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک أسوہ ہی سے سیکھیں۔ یہی و جہ ہے کہ دنیا نے ان کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے اور خزانوں کی چابیاں ان کے سپرد کر دی تھیں اور زمین ان کے قدموں کے نیچے سکڑ گئی تھی۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ اپنی مکاتبت میں سے کھجوروں کے پودے لگا چکے تھے۔ اب سونا دینا باقی تھا۔ ایک دن رحمت عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں میں جلوہ افروز تھے کہ ایک آدمی انڈے کے برابر سونے کی ایک ڈلی لایا جو اسے کہیں سے ملی تھی، وہ اس نے صدقہ کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً فرمایا: ’’وہ مسکین مکاتب فارسی کہاں ہے؟ ذرا اسے بلا لاؤ۔‘‘ جب وہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ لو سونا اور جا کر اپنے مالک کو دے دو۔‘‘ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو بہت کم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اسے لے لو۔ اللہ تعالیٰ اسی کے ذریعے تمھاری ادائیگی پوری فرما دے گا۔‘‘ میں نے وہ لے لیا اور اس کا وزن کیا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں سلمان کی جان ہے! اس کا وزن پورے چالیس اوقیے کے برابر ہو گیا، چنانچہ میں نے وہ سونا یہودی مالک کو ادا کر دیا۔ [1] |