اسے اس کے حسب و نسب اور مال و دولت نے اس بات پر ابھارا۔ یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارے علاوہ تمام لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اگر تم طاقت رکھتے ہو اور پورے عرب کی دشمنی اور جنگوں پر صبر و استقامت اختیار کر سکتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے فیصلے پر غور و فکر کرلو کیونکہ تم پریکے بعددیگرے تیروں کی برسات ہو گی، لہٰذا اپنے معاملے پر اپنے سرداروں سے مشورہ کر لو، سب سے اچھی بات وہی ہے جو سیدھی، صاف اور کھری ہو۔[1] ایسی باتیں معاملات کی سنگینی اور پریشانیوں سے نکلنے کا حل بتاتی ہیں اور حالات جس چیز کا تقاضا کرتے ہیں اسے خوب سمجھاتی ہیں۔سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہیں پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان کی حقیقت کو سمجھنے اور کھرے کھوٹے کا فرق واضح کرنے کے لیے کہا کہ تم میرے سامنے لڑائی کے پینترے بیان کرو اور بتاؤ کہ تم دشمن کا مقابلہ کیسے کرتے ہو؟ عبداللہ بن عمر بن حرام کھڑے ہوگئے، انھوں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! ہم جنگجو لوگ ہیں، ہم جنگی آلات سے محبت کرتے ہیں۔ ہم نے اسے اپنے آباء سے اور ہمارے بڑوں نے اپنے بڑوں سے وراثت میں پایا، ہم تیر اس انداز سے پھینکتے ہیں کہ ہدف پر جالگے، ہم نیزوں سے وار کرتے ہیں حتی کہ نیزے ٹوٹ جائیں۔ پھر ہم تلواروں کے ساتھ چل پڑتے ہیں اور اپنے دشمن پر شیروں کی طرح جھپٹ پڑتے ہیں اور اس بہادری سے لڑتے ہیں کہ یا تو خود مر جاتے ہیں یا دشمن پر غلبہ حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘ ان کا یہ جواب سن کر عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ چمک اٹھا، وہ ان لوگوں سے مطمئن ہو گئے |