جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی نعش کو دیکھا تو یہ بڑا دلدوز اور روح فرسا منظر تھا جو اس سے پہلے آپ نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہو گئے اور آپ کو انتہائی شدید صدمہ ہوا۔ فرمایا: ’’اے حمزہ! اللہ تجھ پر رحم کرے جہاں تک میں جانتا ہوں تو صلہ رحمی اور بہت زیادہ نیکی کرنے والا انسان تھا۔ اگر تیرے وارث تجھ پر غمزدہ نہ ہوں تو تجھے اسی حالت پر چھوڑ دینا مجھے اچھا لگتا ہے تاکہ تیرا حشر مختلف (چرند پرند) کے بطنوں سے ہو۔ خبردار! اگر اللہ نے مجھے ان پر کامیابی دی تو میں یقیناً تیرے بدلے میں ان کے ستر آدمیوں کا مثلہ کروں گا۔‘‘ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیت نازل فرما دی: ﴿ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ ﴾ ’’اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی تمھیں تکلیف پہنچی ہو، اور اگر تم صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت بہتر ہے۔‘‘ [1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیوں نہیں! ہم تو صبر ہی کریں گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارادے سے رُک گئے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا۔[2] مسلمان مدینہ کی طرف پلٹ آئے مگر ان کے ساتھ علم بردار واپس نہیں آیا، مصعب الخیر رضی اللہ عنہ شہادت کے اس راستے سے واپس نہیں پلٹے جس پر دیگر مجاہدینِ اسلام بھی گامزن ہونا چاہتے تھے۔ یقیناً وہ ایسے راستے پر چل نکلے تھے جو ہمیشہ کی کامیابی والا راستہ تھا اور اسی راستے نے انھیں شہادت کے رتبے پرفائز کر دیا تھا۔ وہ اپنے رب کے ہاں زندگی کا شرف |