Maktaba Wahhabi

158 - 269
عبداللہ بن جحش اس چھوٹے سے لشکر کے امیر تھے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی طرف بھیجا تھا۔ جس میں عمرو الحضرمی قریشی کو قتل کیا گیا اور عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ اور حکم بن کیسان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ چھوٹا سا لشکر تھا جس نے قریش کو برانگیختہ کیا اور کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھی حرمت والے مہینے کی بھی قدر نہیں کرتے۔ عبداللہ بدر اور اس کے بعد والے تمام معرکوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے حتی کہ غزوہ أحد میں بھی جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کے امتحان اور آزمائش کا ارادہ فرمایا۔ منافق عبداللہ بن أبی آدھے راستے سے لشکر کا ایک تہائی حصہ لے کر واپس ہو گیا اور مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر مدینہ سے باہر نکل کر میدان میں آنے پر مجبور کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معرکہ شروع ہونے سے پہلے ایک چھپر تلے بیٹھ گئے، ام سلمہ ایک بھنی ہوئی دستی لائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرمایا، پھر وہ آپ کے پاس انگور کا جوس لائیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا، پھر یہ جوس قوم میں سے ایک شخص نے لے لیا اور اسے پیا، پھر عبداللہ بن جحش نے اسے لے لیا اور سانس لیے بغیر ایک دم پینا شروع کر دیا۔ ایک آدمی نے ان سے کہا تھوڑا پیو، کیا معلوم کہ کل تم کہاں ہو گے؟ انھوں نے کہا: ’’جی ہاں، میں اللہ تعالیٰ سے سیرابی کی حالت میں ملوں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں اسے پیاس کی حالت میں ملوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میں تیرے راستے میں شہید ہو جاؤں اور میرا مثلہ کیا جائے۔‘‘[1] ابن سعد بن ابی وقاص اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: فرماتے ہیں کہ
Flag Counter