Maktaba Wahhabi

152 - 269
عرب لوگ کسی بیرونی حملے یا اہم معاملے کے وقت بولتے تھے۔) عبداللہ رضی اللہ عنہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کے مطابق اپنے بستر میں آنکھیں کھولے ہوئے آپ کے غار حراء میں جانے کا منظر دہرا رہے تھے کہ اچانک فضا ’یا صباحاہ! یا صباحاہ!‘سے گونجنے لگی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز ہے جو صفا کی بلندی سے پکار رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے اوپر تنی ہوئی چادر اتار پھینکی اور تیزی سے اس جانب چل دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش جمع تھے۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ اس امین صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیں بلانے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے، آخر وہ کیا دعوت دینا چاہتے ہیں۔ وہ بخوبی آگاہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیر ہی کی خبر دینے والے ہیں، اچھا بول ہی بولنے والے ہیں اور سوائے حق کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بول ہی نہیں سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ بنو سعد میں پرورش پائی تھی اور بیان کی خوبی کے مالک تھے، اس لیے انھوں نے جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا اسے نہایت فصیح و بلیغ اور فیصلہ کن ہی پایا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اجتماع کو دیکھا تو فرمانے لگے: ’’اے آل لؤی، اے آل مرہ، اے آل کلاب، اے آل قصی، اے آل عبد مناف! اگر میں تمھیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کی اوٹ میں ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟‘‘سب نے بیک زبان کہا: ہاں، ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا ہی پایا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’میں تمھاری طرف اور دیگر تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: ﴿ فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ ،وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ
Flag Counter