مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مشورہ کر سکیں۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ معزول کر دیے گئے اور ان کی جگہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہا کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔ وہ جلیل القدر صحابی، پاکیزہ دل والے اور پیروں کے تلووں تک ایمان میں شرابور تھے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا۔ لیکن اہل کوفہ ان سے بھی راضی نہ ہوئے۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ بھی انھیں راس نہ آئے۔ اہل کوفہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ پر الزام عائد کیا کہ وہ کمزور ہیں اور حکمرانی کا علم نہیں رکھتے۔ اس بار بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا عذر قبول کیا اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر فرمایا: ’’میں اہلِ کوفہ سے عاجز آگیا ہوں۔ اگر میں ان پر کسی طاقتور شخص کو حاکم مقرر کرتا ہوں تو اسے ذلیل و رسوا کر دیتے ہیں اور اگر ان پر کسی کمزور شخص کو مقرر کروں تو اسے حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔‘‘ [1] اس فتنے میں جس کی آگ شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد مزید بھڑک اٹھی، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور خلافت پر ان کی بیعت کی۔ وہ سیدنا معاویہ اور ان کے ساتھیوں کے پاس نصیحت اور مشورے کی غرض سے بھی جاتے رہے اور ان سے مطالبہ کرتے رہے کہ وہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لیں۔ لیکن انھوں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کا مشورہ نہ سنا، نہ ان کی نصیحت قبول کی، چنانچہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور مستقل طور پر اپنے گھر میں مقیم ہو گئے۔ ان کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کی وحدت قائم رہے اور صف بندی کی صورت میں تمام مسلمان ایک ایسے شخص کے پیچھے کھڑے ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ویسی ہی |