ایک تیسری روایت میں ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ میں یہ بات چیت مدینہ میں حج کے دوران میں ہوئی۔ وہ دونوں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے پوچھا۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے وہی بات بیان کی جو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بتا چکے تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: ’’اگر میں نے یہ بات آج سے پہلے سنی ہوتی تو میں علی رضی اللہ عنہ کا خادم بن جاتا حتی کہ وہ وفات پا جاتے یا مجھے موت آ جاتی۔‘‘ اللہ ان سب پر ڈھیروں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین! وقت اجل آ پہنچا اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اس دنیا سے اپنے ساتھیوں اور دوستوں کی جانب حقیقی اور قدرت والے بادشاہ کے پاس کوچ کر گئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو امہات المومنین نے لوگوں کو پیغام بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں رکھو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ امہات المومنین نے اپنے حجروں میں کھڑے ہو کر ان کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ پھر انھیں باب الجنائز کی طرف سے قبرستان لے جایا گیا۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو یہ خبر پہنچی کہ لوگوں نے اس فعل پر نکتہ چینی شروع کر دی ہے۔ لوگوں نے کہا: ’’جنازے مسجد میں نہیں رکھے جاتے۔‘‘ یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا: ’’لوگ کس قدر جلد اس بات کے بارے میں نکتہ چینی شروع کر دیتے ہیں جس کے بارے میں انھیں علم ہی نہیں ہوتا۔ انھوں نے ہم پر اعتراض کیا ہے کہ ہم نے جنازہ مسجد میں کیوں رکھوایا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل ابن بیضاء کی نمازِ جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔‘‘ [1] |