دوسری طرف نوجوان زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی تصدیق میں قرآن نازل ہوا۔ وہ دل کے سچے تھے توزبان کے بھی سچے تھے۔ انھوں نے منافقین کے سردار کی جو شکایت کی تھی وہ بھی درست تھی۔ اس واقعے کے بعد تو زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہر غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔ وہ سچے اور بہادر سپاہی تھے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے ہر موقع پر جہاد کیا۔ جہاد گویا ان کا پیشہ بن گیا تھا۔ اب وہ کسی بھی غزوے سے، چاہے حالات و اسباب کیسے ہی ہوں، پیچھے نہیں رہ سکتے تھے۔ زید رضی اللہ عنہ اس غزوے میں بھی شریک تھے جو روم کے علاقوں میں لڑاجانا تھا، جس کا نام غزوۂ مؤتہ ہے۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اس لشکر میں ایک بہادر سپاہی کی حیثیت سے شامل تھے۔ وہ خود اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں: غزوہ مؤتہ کے موقع پر میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ انھوں نے مجھے اپنے پیچھے سوار کیا ہوا تھا۔ ایک رات میں نے انھیں یہ اشعار کہتے ہوئے سنا: إِذَا أَدْنَیْتَنِي وَ حَمَلْتِ رَحْلِي مَسِیرَۃَ أَرْبَعٍ بَعْدَ الْحِسَائِ فَشَأْنُکِ فَانْعِمِي وَ خَلَاکِ ذَمٌّ وَلَا أَرْجِعُ إِلٰی أَہْلِي وَرَائِي وَ آبَ الْمُسْلِمُونَ وَ غَادَرُونِي بِأَرْضِ الشَّامِ مُشْتَہِي الْإِوَائِ |