کا شکار نہ ہوں۔ اس کے بعد سعد رضی اللہ عنہ نے ایران کے بادشاہ یزدگرد کے پاس جو سفیر بھیجے ان میں اشعث رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ان سفیروں کے نام یہ ہیں: نعمان بن مقرن، بُسر بن رُہم، اشعث بن قیس اور عاصم بن عمرورضی اللہ عنہم ۔ یہ تمام لوگ ایک وفد کی شکل میں گئے تھے۔ یہ وفد جب یزدگرد کے دربار میں پہنچا تو لوگ انھیں دیکھنے کے لیے جمع ہوگئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کے گھوڑے ہنہنا رہے ہیں، انھوں نے پھٹی پرانی چادریں اوڑھ رکھی ہیں اور کوڑے ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ یزدگرد نے انھیں ملاقات کی اجازت دی تو گفتگو کے لیے ایک ترجمان بھی بلالیا۔ یزدگرد نے ترجمان سے کہا: ان سے پوچھو، انھیں یہاں کون سی شے لائی ہے اور یہ لوگ ہم سے کیوں جنگ کرنا چاہتے ہیں؟ نیز یہ ہمارے علاقے میں کس کی اجازت سے آئے ہیں؟ کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں کہ ہمیں غافل پاکر یہ ہم پر چڑھ دوڑے ہیں؟ نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے ساتھیوں سے کہا: اگر تم اجازت دو تو میں بات کرتا ہوں اور اگر دوسرا کوئی بات کرنا چاہے تو میں اسے ترجیح دوں گا۔ ساتھیوں نے بالاتفاق کہا: آپ ہی گفتگو کریں۔ نعمان رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے پاس ایک رسول بھیج دئیے جو ہمیں اچھے کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے ہمیں روکتے ہیں۔ اگر ہم ان کی بات مان کر زندگی گزارتے ہیں تو انھوں نے ہم سے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا وعدہ کیا ہے۔ جس قبیلے کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی تو کچھ لوگ آپ کی دعوت قبول کرکے آپ کے قریب آگئے اور کچھ لوگوں نے دوری اختیار کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ |