[اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي خَطَّأَ فَاکَ یَا أَشْعَثُ! یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! فَقَدْ کُنْتُ أَشْتَہِي أَنْ یُّخْزِیَکَ اللّٰہُ] ’’ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے تیری بات کو غلط قرار دیا ہے۔ اوئے اللہ کے دشمن اشعث! میری خواہش یہی تھی کہ اللہ تجھے رسوا کرے۔‘‘ پھر ان کی مشکیں کس دی گئیں۔ مہاجر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ انھیں مہلت دے دیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیں، وہ ان کے حق میں بہتر فیصلہ جانتے ہیں۔ چنانچہ دیگر قیدیوں کے ساتھ اشعث کو بھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ مسلمان انھیں لعن طعن کررہے تھے بلکہ ان کی قوم کے قیدی بن جانے والے افراد بھی انھیں لعن طعن اور ملامت کررہے تھے۔ عورتوں نے ان کا نام ’’عرف النار‘‘ رکھ دیا تھا۔ یہ نام ان کے ہاں دھوکے سے کام لینے والے کا ہوتا تھا۔ جب یہ مدینہ پہنچے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: بتاؤ، میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ اشعث: میں نہیں جانتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ : میں تمھیں قتل کرادوں گا۔ اشعث: میں نے اپنی قوم کو بہکایا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ : صلح نامے پر مہر کے بعد صلح اپنی تمام شرائط کے ساتھ لاگو ہوجاتی ہے۔ تو پھسلانے والا تو اس سے پہلے تھا (بعد میں نہیں)۔ اشعث کو جب خطرہ محسوس ہوا کہ مجھے قتل کردیا جائے گا تو کہنے لگے: کیا آپ میرے اندر بھلائی کی امید رکھتے ہیں؟ تو میرے قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے، میری لغزشوں سے |