آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی کھلی مدد تھے۔ آپ کی لائی ہوئی شریعت کوئی انوکھی یا اجنبی چیز نہ تھی بلکہ آپ نے بھی ہمیں وہی باتیں بتائیں جو سیدنا نوح علیہ السلام اپنی قوم کو بتایا کرتے تھے اور وہی باتیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتائی تھیں جب انھیں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے ہاں تشریف لانے کے بعد لوگوں میں سے کسی کا ڈر اور خوف نہ رہا، نہ کسی قریبی دشمن کا اور نہ دور کے دشمن کا۔ ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اپنا حلال مال آپ پر نچھاور کردیا اور جنگ اور غمخواری کے موقع پر اپنی جانیں بھی پیش کردیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق و مالک، مدبر و رازق نہیں اور ہمیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے اچھی ہدایت دینے والا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن سے ہماری بھی دشمنی ہے اگرچہ وہ ہمارا کتنا ہی قریبی دوست کیوں نہ ہو۔ میں ہر بار جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں تو کہتا ہوں آپ انتہائی بابرکت ہیں اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں کی اکثریت اکٹھی کرلی ہے۔ میں جب کسی خوف والی زمین سے گزرتا ہوں تو کہتا ہوں مجھ پر رحم کر میرے دشمنوں کو مجھ پر غالب نہ کر۔ آپ دوسروں سے اعراض کرتے ہوئے آگے بڑھیے۔ بے شک ہلاکتیں بہت ہیں اور اے مخاطب! بے شک تو اپنے آپ کو بچانے والا کوئی نہیں پائے گا۔ اللہ کی قسم! آدمی کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کیسے بچ پائے گا جبکہ اس نے اللہ کو اپنا محافظ نہ بنایا ہو۔‘‘ [1] |