صرمہ رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو خالق و مالک کا تعارف کروایا، پھر انھیں عمدہ اخلاق اپنانے کی دعوت دی۔ انھوں نے اپنی قوم کو صلہ رحمی کرنے، یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور اس کے مال کی حفاظت کی تلقین کی۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا دارِ فانی ہے اور آخرت کا گھر دائمی گھرہے۔ اسی طرح انسان کے پاس جو مال و دولت ہے وہ سب عارضی ہے ایک نہ ایک دن اس نے ختم ہوجانا ہے۔ اس کی مثال عاریتاً لی ہوئی شے کی ہے جو بالآخر مالک کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ لوگو! نیکی اور تقوی اختیار کرو، ہر گھٹیا اور عیب دار بنانے والے اعمال سے بچو، نیز حلال اور پاکیزہ رزق کھانے کا التزام کرو۔ حضرت صرمہ رضی اللہ عنہ اپنی بنائی ہوئی مسجد (عبادت گاہ) میں گوشہ نشین رہے۔ لوگوں کو اچھے اور عمدہ اخلاق اپنانے، گھٹیا اور ردی اخلاق سے دور رہنے کی دعوت دیتے رہے، یہاں تک کہ اسلام کے سفیر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ وہ اہل مدینہ کو اسلام کی طرف بلا رہے تھے۔ کامیابی کی صورت میں انھیں جنت کی خوشخبری سنارہے تھے بشرطیکہ وہ اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت پر لبیک کہیں۔ صرمہ رضی اللہ عنہ نے سنا تو فوراً خوشی خوشی اسلام قبول کرلیا اور دین اسلام کے جانباز سپاہی بن گئے۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد انھیں بہت سے ایسے سوالوں کا جواب مل گیا تھا جو ان کے ذہن میں گردش کرتے رہتے تھے۔ جن کی وجہ سے ان کے دن کا سکون اور راتوں کا چین برباد ہوچکا تھا۔ انھیں ان سوالوں کا جواب کہیں سے نہیں مل رہاتھا۔ ابو قیس صرمہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت اسلام کی پاداش میں کفار قریش کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں کی اپنے اشعارمیں یوں منظر کشی کی ہے: |