ظلم وستم، خود غرضی، بد کلامی، بے حیائی، تکبر وغرور، تکلف، بخل اور ریاء کاری کی سنگینیت کا تعارف کرواتے ہوئے اس سے اجتناب کی تلقین کی ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں مدینہ کے ایک نوجوان تاجر کا تذکرہ ملتا ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک ڈھیر میں ڈالا تو انگلیوں میں کچھ تری محسوس کی۔ جس پر آپ نے اسے فرمایا: ((ما هذا یا صاحب الطعام؟ قال أصابته السماء یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أفلا جعلته فوق الطعام حتی یراه الناس، من غشنا فلیس منا.)) [1] ’’اے غلےوالے یہ کیا ؟اس نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بارش کی وجہ سے ایسا ہوگیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اس بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہ کر دیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے ؟ جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ مذکورہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دھوکہ کی مذمت کرتے ہوئے نوجوان کی تربیت فرما رہے ہیں ۔کیونکہ مسلمانوں کا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہوتا ہے جس پر محبت اور خیر خواہی کی فضا چھائی رہتی ہے اور جس کے افراد پر نیکی، سچائی اور وفاداری کا غلبہ ہوتا ہے، چنانچہ ایسے معاشرہ میں دغا باز، دھوکہ باز، فریب کار، مکار وچالباز، ناشکرے اور غدار شخص کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک اور حدیث میں اخلاقی رذائل کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ جس میں یہ پائے جائیں گے وہ مسلمان نہیں بلکہ منافق ہے۔ارشاد نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((أربع من کن فیه كان منافقا خالصا، ومن کانت فیه خصلة منهن کان فیه خصلة من النفاق حتی یدعها: إذا اؤتمن خان، وإذا حدث کذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر.)) [2] ’’چار خصلتیں جس کے اندر پائی جائیں وہ خالص منافق ہے، اور جس کے اندران میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے گی اس میں نفاق کی ایک علامت ہوگی جب تک کہ وہ اسے ترک نہ کر دے: جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب کوئی وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ بکے۔‘‘ ایک اور مقام پر رذائل اخلاق کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ((إن الفحش والتفحش لیسا من الإسلام في شیء)) [3] |