رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہونے والے نسخ کی خبر نہ ہوسکی۔ یہ بھی ہوسکتا ہےکہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جو’ام ولد ‘کی بیع کرتےتھے وہ نسخ سےپہلے ہودونوں میں سے یہ تاویل زیادہ مناسب ہے۔ جہاں تک عہد صدیقی رضی اللہ عنہ میں امہات الاولاد کی خرید وفروخت کامسئلہ ہے تواس میں احتمال یہ ہے کہ ایساایک آدھ قضیہ ہی ہوا ہولیکن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یادیگر ان حضرت کومعلوم نہ ہوسکا جونسخ کاعلم رکھتےتھے۔ اس سےسیدناجابر رضی اللہ عنہ نےیہ سمجھا کہ لوگ اسےجائز ہی خیال کرتےہیں۔ لہٰذا انہوں نےوہی بیان کیاجوپہلے سے ان کےنزدیک ثابت شدہ تھا۔ پھر جب عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں نسخ کی شہرت ہوئی توانہوں نےجماعت کےنقطہ نظر کی طرف رجوع کرلیا ہو۔ ان کایہ قول بھی اس کی طرف اشارہ کناں ہےکہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےہمیں روکاتو ہم رک گئے ۔‘‘ مندرجہ بالاتفصیلات کاحاصل یہ ہے: 1۔ امہات الاولاد کی بیع کوخود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےممنوع قرار دیاتھا۔ 2۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےاسی بناء پر اس سےروکا تھا ،یہ کوئی تبدیلی نہ تھی ۔ 3۔ جولوگ اس وقت تک’ ام ولد‘ کی بیع کو جائز سمجھتے تھے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کاعلم نہ تھا ۔ 4۔ امت کےارباب فقہ واجتہاد کی عظیم اکثریت امہات الاولاد کی بیع کرناجائز قرار دیتی ہے ۔ لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےاس اقدام سےیہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ انہوں نےکسی منصوص حکم میں حالات وزمانہ کی رعایت سےتبدیلی کی ہے۔ ساتواں مسئلہ :شرابی کی سزا میں ردوبدل شرعی احکام میں تغیر وتبدل کےقائلین سیدناعمر رضی اللہ عنہ کےاس عمل کو بھی اپنے نقطہ نگاہ کےحق میں پیش کرتےہیں کہ انہوں نےشرابی کی سزا اسی کوڑے متعین کی تھی جبکہ اس سےپہلے ایسانہ تھا ۔غلام احمد پرویز رقمطراز ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے میں شراب خورکو جوتے وغیرہ مارکرچھوڑدیاجاتاتھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےشرابی کی سزاچالیس کوڑے مقرر کی اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ نےاسے بڑھا کر اسی کوڑے کردیا۔‘‘ [1] مولانا شاہ محمد جعفر صاحب پھلواری رحمہ اللہ’’شرعی تبدیلیوں کی مثالیں ‘‘بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں: ’’سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تک شرابی کی تعزیر چالیس درےتھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے 80کردیا اورسیدناعثمان رضی اللہ عنہ نےدونوں ہی پر مختلف اوقات میں عمل کیا ۔‘‘ [2] |