Maktaba Wahhabi

78 - 114
بیع ’ام ولد‘ کی دلیل جواز کاجائزہ اس امر کےحق میں کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اورعہد صدیقی رضی اللہ عنہ میں’ ام ولد‘ کی بیع جائزتھی ابوداؤد کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاتاہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےشرعی حکم میں تبدیلی کی تھی۔ وہ روایت یہ ہے: ’’عن جابر رضى اللّٰہ تعالی عنه قال: بعنا أمهات الأولاد علي عهد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بكر فلما كان عمر نهانا فانتهينا. ‘‘[1] ’’سیدناجابر رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے اورعہد صدیقى میں امہات الاولاد کی بیع کیاکرتےتھے۔مگرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےہمیں اس سےمنع کیاتو ہم اس سےرک گئے ۔‘‘ اگر امہات الاولاد کی بیع کےسلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےارشادات کوسامنے رکھا جائے تواس کی کئی توجیہات کی جاسکتی ہیں : 1۔ ایک محمل اس روایت کایہ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں نےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ’ام ولد ‘کی خرید وفروخت کی ہولیکن آپ کوعلم نہ ہوا ہو، لہٰذا یہ تقریری سنت نہیں بن سکتی ۔پس اس سے استدلال بھی درست نہیں ۔ علامہ خطابی رحمہ اللہ (متوفیٰ 388ھ) ’’معالم السنن ‘‘میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کےتحت لکھتےہیں : ’’ويحتمل أن يكون هذا الفعل منهم في زمان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وهو لايشعر بذلك لأنه أمر يقع نادرا وليست أمهات الأولاد كسائر الرقيق. ‘‘[2] ’’اس امر کااحتمال ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایساکیا ہواورآپ کو اس کاعلم نہ ہواہو ،اس لیے کہ ’ام ولد ‘کی خریدوفروخت کامعاملہ شاذ ونادر ہی پیش آتا تھا اوراس لیے بھی کہ امہات الاولاد عام غلاموں کی طرح نہیں تھیں۔‘‘ امام بیہقیرحمہ اللہ (متوفیٰ 458ھ) بھی اس بات کی نفی کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کاعلم تھا۔ وہ تحریر کرتےہیں: ’’وليس في شئ من الطرق أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم اطلع علي ذلك يعني بيع أمهات الأولاد وأقرهم عليه. ‘‘[3]
Flag Counter