توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : ((أعتقها ولدها.)) [1] ’’اس کابچہ اس کی آزادی کاسبب بن گیا۔‘‘ ان احادیث سےواضح ہوتاہےکہ خود رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ’ام ولد ‘کو بیچنے سےمنع کردیا تھا ۔لہذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےاس مسئلہ میں کوئی بتدیلی نہیں کی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےسنت کی پیروی میں ممانعت کی سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نےامہات الأولاد کی خریدوفروخت کی ممانعت انہی ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بناء پر کی تھی۔سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ (متوفیٰ 94ھ) کابیان ہے: ’’أن عمر أعتق أمهات الأولاد وقال أعتقهن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم . ‘‘ [2] ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےامہات اولادکوآزاد کیااورکہا کہ انہیں رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد فرمایا ہے۔‘‘ جمہور علماء کامسلک مسئلہ زیربحث میں جمہور علمائے امت کانقطہ نگاہ یہی ہےکہ امہات الأولاد کی بیع ممنوع ہے۔ بلکہ بعض فقہاءنے تواس پر اجماع کادعوی بھی کیاہے۔علامہ محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1255ھ) تحریر کرتےہیں: ’’وقد استدل بحديثي ابن عباس المذكورين في الباب وحديث ابن عمر القائلون بأنه لا يجوز بيع أمهات الأولاد وهم الجمهور، وقد حكي ابن قدامة إجماع الصحابة علي ذلك. ‘‘ [3] ’’جمہور اہل علم امہات الاولاد کی بیع کو ناجائز کہتےہیں اوران کااستدلال اوپر مذکور سیدناابن عمر رضی اللہ عنہ اورسیدناابن عباس رضی اللہ عنہ کی احادیث سےہے ۔ابن قدامۃرحمہ اللہ نے اس پر اجماع کادعوٰی کیاہے۔‘‘ یہ دعویٰ اجماع اگرچہ صحیح نہیں تاہم سلف صالحین کی عظیم اکثریت اسی موقف کی قائل ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی ایک طویل بحث کےبعد اسی کو مبنی پر احتیاط قرار دیاہے ۔ [4] |