سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےاجماع نےاس مد کو قیامت تک کےلیے ساقط کردیا جوقرآن میں بعض اہم مصالح دینی کےلیے رکھی گئی تھی ۔‘‘ [1] حاصل یہ ہےکہ بوقت ضرورت’’مؤلفة القلوب‘‘کی مد سےزکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےاس سلسلہ میں کوئی تبدیلی کی نہ اسےمنسوخ کیا، لہٰذا انکےاس اقدام سےتبدیلی احکام پر استدلال درست نہیں ہے۔ ’’مؤلفة القلوب‘‘ کومال دینےکی پرویزی توجیہ آخر میں پرویز صاحب کی اس توجیہ پر مختصر تبصرہ بھی مناسب رہےگا کہ ’’مؤلفة القلوب‘‘ کےحصہ سےمراد یہ ہے: ’’جن لوگوں کواسلام قبول کرنےپر کسی قسم کا ناقابل برداشت نقصان پہنچے، ان کی تلافی کےلیے حکومت ان کی مالی امداد کرے۔‘‘ [2] یہ درست ہےکہ اگر کسی کوایسے حالات کاسامنا ہوتواسےزکوٰۃ دی جاسکتی ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ’’مؤلفة القلوب‘‘کی مد سے زکوٰۃ صرف اسی نوعیت کےحالات سےدوچار لوگوں کےلیےہے۔ علماء نےصراحت کی ہے کہ اگر مال دار بھی ہےتوبھی اسے اس مدسےرقم دی جاسکتی ہے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ ’’مؤلفة القلوب‘‘ کی تفصیلات بیان کرتےہوئے لکھتےہیں: ’’ایسے لوگوں کےلیے یہ شرط نہیں ہےکہ وہ فقیر ومسکین یامسافر ہوں، تب ہی ان کی مدد کی جاسکتی ہے، بلکہ وہ مال داراوررئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دئیے جانے کےمستحق ہیں۔‘‘ [3] حاصل یہ کہ حاصل برداشت نقصان نہ بھی ہوتو اس مد سےرقم دی جاسکتی ہے ضروری نہیں ہےکہ وہ اس طرح کےنقصان کی زد میں آئے ہوں۔ بلکہ اس طرح کےلوگ فقیرومسکین یا ’الغار مین‘کی مدات میں بھی آسکتے ہیں تالیف قلب کاتعلق اصل میں مال سےنہیں بلکہ دلی احساسات وجذبات کومائل کرنےسے جیسا کہ خود یہ لفظ اس پر دلالت کررہا ہے۔ چھٹامسئلہ :’ام ولد‘ کی فروخت پر پابندی حالات وزمانہ کی تبدیلی سےشرعی احکام میں تغیر وتبدل کےحق میں ایک دلیل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےامہات اولاد کی بیع ممنوع قراردےدی تھی ،حالانکہ پہلے منع نہ تھی ۔ |