’’یہ علت کےانتفاء سےحکم کےانتفاء کی قبیل سےہے ۔‘‘ اور’’مؤلفةالقلوب‘‘کےالفاظ بھی اسی کی جانب اشارہ کناں ہیں۔ تمام مصارف میں زکوۃ صرف کرنا ضروری نہیں اوپر مولانا مودودی رحمہ اللہ کےاقتباس میں یہ بات آئی ہے کہ ہرصورت میں ’’مؤلفة القلوب‘‘کوحصہ دینا ضروری نہیں ہے۔ اس کی تائید امام شافعی رحمہ اللہ (متوفیٰ 204ھ) کےاس قول سےہوتی ہے: ’’العامل والمؤلفة قلوبهم مفقودان في هذا الزمان، بقيت الأصناف الستة فالأوليٰ صرفها إلي الستة وأما إنه يعتبر في كل صنف منها مؤول لفظة إن كان موجودا. ‘‘[1] ’’عاملین زکوٰۃ اورمولفۃ القلوب اس زمانہ میں مفقود ہیں ،صرف چھ قسم کےمستحقین باقی ہیں ،اس لیے بہتر یہ ہے کہ انہی چھ قسموں میں زکوٰۃ کاروپیہ صرف کیاجائے اوریہی حال ان میں سے ہر مصرف کاہے یعنی مصرف کی ضرورت نہ ہوگی اس میں صرف نہ کیاجائےگا گویا ہرمصرف کےساتھ یہ لفظ لگاہوا ہے کہ اگر وہ موجود ہو۔‘‘ ’’مؤلفة القلوب‘‘ کامصرف تاقیامت باقی ہے بہرآئینہ’’مؤلفة القلوب‘‘ کامصرف قیامت تک کےلیے باقی ہے، لہٰذا جب بھی ضرورت ومصلحت کاتقاضا ہوگا اس مدمیں سےزکوٰۃ اداکی جائے گی۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نےچونکہ ضرورت محسوس نہ کی اورشرعی حکم کی علت موجود نہ سمجھی تواس پر عمل نہیں فرمایا۔ اس سےیہ نتیجہ اخذ نہیں کیاجاسکتا کہ اب ہمیشہ کےلیے ختم ہوگیا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے ۔ مولانا سیدابوالاعلی صاحب مودودی رحمہ اللہ اس مسئلہ سےمتعلق مختلف آراء نقل کرنےکےبعد راجح نقطہ نظر بیان کرتےہوئے رقمطراز ہیں : ’’ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ ’’مؤلفة القلوب‘‘ کاحصہ قیامت تک کےلیے ساقط ہوجانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔بلاشبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےجوکچھ کہاوہ بالکل صحیح تھا ۔اگر اسلامی حکومت تالیف قلب کےلیے مال صرف کرنےکی ضرورت نہ سمجھتی ہوتو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہےکہ ضرورہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے، لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہوتواللہ نےاس کےلیے جوگنجائش رکھی ہےاسے باقی رہناچاہیے۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااجماع جس امر پر ہواتھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانے میں جوحالات تھے اس میں تالیف قلب کےلیے کسی کو کچھ دینےکی وہ حضرات ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ اس |